EN हिंदी
یہ کیسے خوف ہمیں آج پھر ستانے لگے | شیح شیری
ye kaise KHauf hamein aaj phir satane lage

غزل

یہ کیسے خوف ہمیں آج پھر ستانے لگے

سید انوار احمد

;

یہ کیسے خوف ہمیں آج پھر ستانے لگے
ہمارے پاس رہو تم کہ دل ٹھکانے لگے

غبار شہر سے باہر تری رفاقت میں
سکوت شام کے لمحے بڑے سہانے لگے

کبھی جو لوٹ کے آئے کسی مسافت سے
تو اپنے شہر کے منظر وہی پرانے لگے

سزا کے خوف سے کیوں اس قدر لرزتا ہے
کر ایسا جرم کہ رحمت بھی مسکرانے لگے

یہ کائنات تو عجلت میں مل گئی تھی مجھے
مگر تلاش میں اپنی کئی زمانے لگے

زہے نصیب مرا فن مقام پا ہی گیا
حسین ہونٹ مرے گیت گنگنانے لگے