یہ کیسے بال کھولے آئے کیوں صورت بنی غم کی
تمہارے دشمنوں کو کیا پڑی تھی میرے ماتم کی
شکایت کس سے کیجے ہائے کیا الٹا زمانہ ہے
بڑھایا پیار جب ہم نے محبت یار نے کم کی
جگر میں درد ہے دل مضطرب ہے جان بے کل ہے
مجھے اس بے خودی میں بھی خبر ہے اپنے عالم کی
نہیں ملتے نہ ملئے خیر کوئی مر نہ جائے گا
خدا کا شکر ہے پہلے محبت آپ نے کم کی
عدو جس طرح تم کو دیکھتا ہے ہم سمجھتے ہیں
چھپاؤ لاکھ تم چھپتی نہیں ہے آنکھ محرم کی
مزہ اس میں ہی ملتا ہے نمک چھڑکو نمک چھڑکو
قسم لے لو نہیں عادت مرے زخموں کو مرہم کی
کہاں جانا ہے تھم تھم کر چلو ایسی بھی کیا جلدی
تم ہی تم ہو خدا رکھے نظر پڑتی ہے عالم کی
کوئی ایسا ہو آئینہ کہ جس میں تو نظر آئے
زمانے بھر کا جھوٹا کیا حقیقت ساغر جم کی
گھٹائیں دیکھ کر بے تاب ہے بے چین ہے شاعرؔ
ترے قربان او مطرب سنا دے کوئی موسم کی
غزل
یہ کیسے بال کھولے آئے کیوں صورت بنی غم کی
آغا شاعر