یہ کیسا شہر ہے میں کس عجائب گھر میں رہتا ہوں
میں کس کی آنکھ کا پانی ہوں کس پتھر میں رہتا ہوں
وہ خوشبو اس تعلق سے بہت بے چین سی ہوگی
میں کانٹا تھا مگر اک پھول کے بستر میں رہتا ہوں
اسے اک دن یہی خانہ بدوشی خود بتائے گی
میں اپنے گھر میں رہتا ہوں کہ اس کے گھر میں رہتا ہوں
اگر مہلت ملے تو قاتلان شہر سے پوچھوں
میں کس کی جان ہوں کیوں سینۂ خنجر میں رہتا ہوں
مجھے یہ بے پناہی کب ترا رستہ دکھائے گی
تری آواز ہوں اور گنبد بے در میں رہتا ہوں
یہ سب خوش پوش چہرے ہو چکے ہیں منکشف مجھ پر
میں ان کے درمیاں کیوں جامۂ محشر میں رہتا ہوں
خودی کیا چیز ہے خورشید اکبرؔ اور خدا کیا ہے
کہوں میں کس زباں سے دست آہن گر میں رہتا ہوں
غزل
یہ کیسا شہر ہے میں کس عجائب گھر میں رہتا ہوں
خورشید اکبر

