یہ کیسا کام اے دست مسیح کر ڈالا
جو دل کا زخم تھا وہ ہی صحیح کر ڈالا
شب سیاہ کا چہرہ اداس دیکھا تو
نکل کے چاند نے اس کو ملیح کر ڈالا
ذرا سا جھانک کے تاریکیوں سے سورج نے
ملیح چہرۂ شب کو صبیح کر ڈالا
میں کیسے عقل کا پیکر سمجھ لوں انساں کو
خود اپنی زیست کو جس نے قبیح کر ڈالا
کل اس نے چھیڑ کے محفل میں تذکرہ میرا
ہر ایک عیب و ہنر کو صریح کر ڈالا
تمہاری داستاں الجھی ہوئی تھی وہموں میں
دعائیں دو ہمیں ہم نے فصیح کر ڈالا
غزل
یہ کیسا کام اے دست مسیح کر ڈالا
ضمیر اترولوی