یہ کہہ کہہ کے ہم دل کو بہلا رہے ہیں
ملاقات کے دن قریب آ رہے ہیں
وہ گلشن میں یوں سیر فرما رہے ہیں
ادھر آ رہے ہیں ادھر جا رہے ہیں
سروں پر مصائب بھی منڈلا رہیں ہیں
مگر گیت خوشیوں کے ہم گا رہے ہیں
سمجھنے کو کوئی بھی راضی نہیں ہے
ہمیں دل تو ہم دل کو سمجھا رہے ہیں
سلجھتی نہیں زلف بھی جن سے اپنی
مسائل زمانے کے سلجھا رہے ہیں
نہ اہل سیاست کی چالوں میں آنا
وہ جال اپنا ہر اور پھیلا رہے ہیں
جنہیں تم نے ٹھکرا دیا تھا کسی دن
ابھی تک وہ زخموں کا سہلا رہے ہیں
غزل
یہ کہہ کہہ کے ہم دل کو بہلا رہے ہیں
شوبھا ککل