EN हिंदी
یہ جو شہتیر ہے پلکوں پہ اٹھا لو یارو | شیح شیری
ye jo shahtir hai palkon pe uTha lo yaro

غزل

یہ جو شہتیر ہے پلکوں پہ اٹھا لو یارو

دشینتؔ کمار

;

یہ جو شہتیر ہے پلکوں پہ اٹھا لو یارو
اب کوئی ایسا طریقہ بھی نکالو یارو

درد دل وقت کو پیغام بھی پہنچائے گا
اس کبوتر کو ذرا پیار سے پالو یارو

لوگ ہاتھوں میں لیے بیٹھے ہیں اپنے پنجرے
آج صیاد کو محفل میں بلا لو یارو

آج سیون کو ادھیڑو تو ذرا دیکھیں گے
آج صندوق سے وہ خط تو نکالو یارو

رہنماؤں کی اداؤں پہ فدا ہے دنیا
اس بہکتی ہوئی دنیا کو سنبھالو یارو

کیسے آکاش میں سوراخ نہیں ہو سکتا
ایک پتھر تو طبیعت سے اچھالو یارو

لوگ کہتے تھے کہ یہ بات نہیں کہنے کی
تم نے کہہ دی ہے تو کہنے کی سزا لو یارو