یہ جو پھوٹ بہا ہے دریا پھر نہیں ہوگا
روئے زمیں پر منظر ایسا پھر نہیں ہوگا
زرد گلاب اور آئینوں کو چاہنے والی
ایسی دھوپ اور ایسا سویرا پھر نہیں ہوگا
گھائل پنچھی تیری کنج میں آن گرا ہے
اس پنچھی کا دوسرا پھیرا پھر نہیں ہوگا
میں نے خود کو جمع کیا پچیس برس میں
یہ سامان تو مجھ سے یکجا پھر نہیں ہوگا
شہزادی ترے ماتھے پر یہ زخم رہے گا
لیکن اس کو چومنے والا پھر نہیں ہوگا
ثروتؔ تم اپنے لوگوں سے یوں ملتے ہو
جیسے ان لوگوں سے ملنا پھر نہیں ہوگا
غزل
یہ جو پھوٹ بہا ہے دریا پھر نہیں ہوگا
ثروت حسین