EN हिंदी
یہ جو پھیلا ہوا زمانہ ہے | شیح شیری
ye jo phaila hua zamana hai

غزل

یہ جو پھیلا ہوا زمانہ ہے

ندا فاضلی

;

یہ جو پھیلا ہوا زمانہ ہے
اس کا رقبہ غریب خانہ ہے

کوئی منظر سدا نہیں رہتا
ہر تعلق مسافرانہ ہے

دیس پردیس کیا پرندوں کا
آب و دانہ ہی آشیانہ ہے

کیسی مسجد کہاں کا بت خانہ
ہر جگہ اس کا آستانہ ہے

عشق کی عمر کم ہی ہوتی ہے
باقی جو کچھ ہے دوستانہ ہے