یہ جو پھیلا ہوا زمانہ ہے
اس کا رقبہ غریب خانہ ہے
کوئی منظر سدا نہیں رہتا
ہر تعلق مسافرانہ ہے
دیس پردیس کیا پرندوں کا
آب و دانہ ہی آشیانہ ہے
کیسی مسجد کہاں کا بت خانہ
ہر جگہ اس کا آستانہ ہے
عشق کی عمر کم ہی ہوتی ہے
باقی جو کچھ ہے دوستانہ ہے
غزل
یہ جو پھیلا ہوا زمانہ ہے
ندا فاضلی