یہ جو میرے اندر پھیلی خاموشی ہے
تم کیا جانو کتنی گہری خاموشی ہے
اس کی اپنی ہی اک چھوٹی سی دنیا ہے
اک گڑیا ہے ایک سہیلی خاموشی ہے
تیرا سایہ تیرے ساتھ سفر کرتا ہے
میرے ساتھ مسلسل چلتی خاموشی ہے
فرقت کا دکھ بس وہ سمجھے جس پر بیتے
میں ہوں سونا گھر ہے گہری خاموشی ہے
شب کے پچھلے لمحوں میں اکثر دیکھا ہے
تنہائی سے مل کر روتی خاموشی ہے
یہ موسم یہ منظر روٹھے روٹھے سے ہیں
جیسے سرد رویے ویسی خاموشی ہے
لگتا ہے کہ تم نے بھی کچھ دیکھ لیا ہے
ہر لمحے جو تم پر طاری خاموشی ہے
مجھ کو انصرؔ روز پریشاں کر دیتی ہے
تیرے ہونٹوں پر جو رہتی خاموشی ہے

غزل
یہ جو میرے اندر پھیلی خاموشی ہے
راشد قیوم انصر