یہ جو کچھ آج ہے کل تو نہیں ہے
یہ شام غم مسلسل تو نہیں ہے
میں اکثر راستوں پر سوچتا ہوں
یہ بستی کوئی جنگل تو نہیں ہے
یقیناً تم میں کوئی بات ہوگی
یہ دنیا یوں ہی پاگل تو نہیں ہے
میں لمحہ لمحہ مرتا جا رہا ہوں
مرا گھر میرا مقتل تو نہیں ہے
کسی پر چھا گیا برسا کسی پر
وہ اک آوارہ بادل تو نہیں ہے

غزل
یہ جو کچھ آج ہے کل تو نہیں ہے
تاج بھوپالی