یہ جو حاصل ہمیں ہر شے کی فراوانی ہے
یہ بھی تو اپنی جگہ ایک پریشانی ہے
زندگی کا ہی نہیں ٹھور ٹھکانہ معلوم
موت تو طے ہے کہ کس وقت کہاں آنی ہے
کوئی کرتا ہی نہیں ذکر وفاداری کا
ان دنوں عشق میں آسانی ہی آسانی ہے
کب یہ سوچا تھا کبھی دوست کہ یوں بھی ہوگا
تیری صورت تری آواز سے پہچانی ہے
چین لینے ہی نہیں دیتی کسی پل مجھ کو
روز اول سے مرے ساتھ جو حیرانی ہے
یہ بھی ممکن ہے کہ آبادی ہو اس سے آگے
یہ جو تا حد نظر پھیلتی ویرانی ہے
کیوں ستارے ہیں کہیں اور کہیں آنسو ہیں
آنکھ والوں نے یہی رمز نہیں جانی ہے
تخت سے تختہ بہت دور نہیں ہوتا ہے
بس یہی بات ہمیں آپ کو بتلانی ہے
دوست کی بزم ہی وہ بزم ہے امجدؔ کہ جہاں
عقل کو ساتھ میں رکھنا بڑی نادانی ہے
غزل
یہ جو حاصل ہمیں ہر شے کی فراوانی ہے
امجد اسلام امجد