EN हिंदी
یہ جو بپھرے ہوئے دھارے لیے پھرتا ہوں میں | شیح شیری
ye jo biphre hue dhaare liye phirta hun main

غزل

یہ جو بپھرے ہوئے دھارے لیے پھرتا ہوں میں

زکریا شاذ

;

یہ جو بپھرے ہوئے دھارے لیے پھرتا ہوں میں
اپنے ہم راہ کنارے لیے پھرتا ہوں میں

تابش و تاب لیے آئے گا سورج میرا
رات بھر سر پہ ستارے لیے پھرتا ہوں میں

برگ آوارہ صفت ساتھ مجھے بھی لے چل
تیرے انداز تو سارے لیے پھرتا ہوں میں

یہ الگ بات چرا لیتا ہے نظریں اپنی
اس کی آنکھوں میں نظارے لیے پھرتا ہوں میں

کہر میں ڈوبی یہ سرما کی سویر اے دنیا
تم سمجھتی ہو تمہارے لیے پھرتا ہوں میں

جانے کیا بات ہے پورے ہی نہیں ہوتے ہیں
جانے کیا دل میں خسارے لیے پھرتا ہوں میں

پھول ہونٹوں پہ ہنسی کے ہیں مہکتے ہوئے شاذؔ
اور سانسوں میں شرارے لیے پھرتا ہوں میں