EN हिंदी
یہ جو اپنے ہاتھ میں دامن سنبھالے جاتے ہیں | شیح شیری
ye jo apne hath mein daman sambhaale jate hain

غزل

یہ جو اپنے ہاتھ میں دامن سنبھالے جاتے ہیں

مصحفی غلام ہمدانی

;

یہ جو اپنے ہاتھ میں دامن سنبھالے جاتے ہیں
پیچھے پیچھے ان کے، ان پر مرنے والے جاتے ہیں

لطف و رنجش کا تماشا ہے کہ دن میں لاکھ بار
گہہ بلائے جاتے ہیں ہم گہہ نکالے جاتے ہیں

جان سے جاتے رہے ہیں بسکہ لاکھوں بے گناہ
ہر طرف کوچے میں اس کے خوں کے نالے جاتے ہیں

سعی تو اپنی نہ کر اے گریہ صرف شست و شو
دل کے دھونے سے کوئی یہ داغ کالے جاتے ہیں

گر نہیں ہے وعدہ گہہ وہ کو تو کیوں راتوں کو لوگ
اس کے کوچے میں اندھیرے اور اجالے جاتے ہیں

اس کے کانوں تک رسائی کیوں نہیں حیران ہوں
عرش اعظم تک تو میرے شب کے نالے جاتے ہیں

ہو گیا ہوں میں تو ان کا مصحفیؔ حلقہ بگوش
یاد سے میری کب ان کانوں کے بالے جاتے ہیں