یہ جتنے پرندے اڑانوں میں ہیں
مرے تیر کے سب نشانوں میں ہیں
چھتیں آسماں چھو رہی ہیں مگر
بڑی پٹیاں ان مکانوں میں ہیں
ہے بھائی سے بھائی بھی نا آشنا
یہ رسمیں بڑے خاندانوں میں ہیں
کتابیں جنہیں دے رہیں ہیں صدا
وہ بچے ابھی کارخانوں میں ہیں
غزل
یہ جتنے پرندے اڑانوں میں ہیں
نور اندوری