یہ جواہرخانۂ دنیا جو ہے با آب و تاب
اہل صورت کا ہے دریا اہل معنی کا سراب
وہ عظیم الشاں مکاں دیتی تھیں جن کی رفعتیں
ہنس کے طاق آسماں کو طاق ابرو سے جواب
وہ مطلا قصر وہ رنگیں منقش بام و در
وہ مرصع خواب گاہیں بہر عیش و بہر خواب
صحن میں بستاں سرا ایسے پر از غلمان و حور
جن کی انہاروں میں جائے آب و گل خالص گلاب
وہ مطلا قصر رنگین و منقش بام و در
جن کی رنگینی سے تھا قصر ارم کو پیچ و تاب
ان میں تھے وہ صاحب ثروت جنہیں کہتے تھے لوگ
کیقباد و قیصر و کیخسرو و افراسیاب
مہروش بہرام صولت بدر قدر و چرخ رخش
مشتری پیکر ثریا بارگہہ کہ واں جناب
وہ تجمل وہ تمول وہ تفوق وہ غرور
وہ تحشم وہ تنعم وہ تعیش وہ شباب
ہر طرف فوج بتاں ہر سو ہجوم گل رخاں
جن کے عارض رنج ماہ و رشک روئے آفتاب
چشمک و آن و اشارات و ادا و سرکشی
طنز و تعریض و کنایت غمزہ و ناز و عتاب
صبح سے لے شام تک اور شام سے لے تا بہ صبح
دم بدم رقص و سرود اور پے بہ پے جام شراب
ساقی و مطرب ندیم و مستی و مے خوار گی
ساغر و مینا و گل عطر و مے و نقل و کباب
کثرت اہل نشاط و جوش نوشہ نوش مے
از زمیں تا آسماں شور نے و چنگ و رباب
وہ بہاریں وہ فضائیں وہ ہوائیں وہ سرور
وہ طرب وہ عیش کچھ جس کا نہیں حد و حساب
یا تو وہ ہنگامۂ تنشیط تھا یا دفعتاً
کر دیا ایسا کچھ اس دور فلک نے انقلاب
جو وہ سب جاتے رہے دم میں حباب آسا مگر
رہ گئے عبرت فزا وہ قصر ویران و خراب
تھا جہاں وہ مجمع رنگیں وہاں اب ہے تو کیا
نقش سم گور یا کہنہ کوئی پر عقاب
ہیں اگر دو خشت باہم تو لب افسوس ہیں
اور جو کوئی طاق ہے تو صورت چشم پر آب
خواب کہیے اس تماشے کو نظیرؔ اب یا خیال
کچھ کہا جاتا نہیں واللہ عالم با لصواب
غزل
یہ جواہرخانۂ دنیا جو ہے با آب و تاب
نظیر اکبرآبادی