یہ جلوہ گاہ ناز تماشائیوں سے ہے
رونق جہاں کی انجمن آرائیوں سے ہے
روتے ہیں دل کے زخم تو ہنستا نہیں کوئی
اتنا تو فائدہ مجھے تنہائیوں سے ہے
دیوانۂ حیات کو اک شغل چاہئے
نادانیوں سے کام نہ دانائیوں سے ہے
قید بیاں میں آئے جو ناگفتنی نہ ہو
وہ رابطہ کہ قلب کی گہرائیوں سے ہے
نادم نہیں ہوں داغ فرومائیگی پہ میں
تیرا بھرم بھی میری جبیں سائیوں سے ہے
غزل
یہ جلوہ گاہ ناز تماشائیوں سے ہے
شکیب جلالی