یہ اک تیرا جلوہ صنم چار سو ہے
نظر جس طرف کیجیے تو ہی تو ہے
یہ کس مست کے آنے کی آرزو ہے
کہ دست دعا آج دست سبو ہے
نہ ہوگا کوئی مجھ سا محو تصور
جسے دیکھتا ہوں سمجھتا ہوں تو ہے
مکدر نہ ہو یار تو صاف کہہ دوں
نہ کیونکر ہو خودبیں کہ آئینہ رو ہے
کبھی رخ کی باتیں کبھی گیسوؤں کی
سحر سے یہی شام تک گفتگو ہے
کسی گل کے کوچے سے گزری ہے شاید
صبا آج جو تجھ میں پھولوں کی بو ہے
نہیں چاک دامن کوئی مجھ سا گویاؔ
نہ بخیہ کی خواہش نہ فکر رفو ہے
غزل
یہ اک تیرا جلوہ صنم چار سو ہے
گویا فقیر محمد