یہ ہجر کا رستہ ہے ڈھلانیں نہیں ہوتیں
صحرا میں چراغوں کی دکانیں نہیں ہوتیں
خوشبو کا یہ جھونکا ابھی آیا ہے ادھر سے
کس نے کہا صحرا میں اذانیں نہیں ہوتیں
کیا مرتے ہوئے لوگ یہ انسان نہیں ہیں
کیا ہنستے ہوئے پھولوں میں جانیں نہیں ہوتیں
اب کوئی غزل چہرہ دکھائی نہیں دیتا
اب شہر میں ابرو کی کمانیں نہیں ہوتیں
ان پر کسی موسم کا اثر کیوں نہیں ہوتا
رد کیوں تری یادوں کی اڑانیں نہیں ہوتیں
یہ شیر ہے چھپ کر کبھی حملہ نہیں کرتا
میدانی علاقوں میں مچانیں نہیں ہوتیں
کچھ بات تھی جو لب نہیں کھلتے تھے ہمارے
تم سمجھے تھے گونگوں کے زبانیں نہیں ہوتیں
غزل
یہ ہجر کا رستہ ہے ڈھلانیں نہیں ہوتیں
منور رانا