یہ حادثہ بھی شہر نگاراں میں ہو گیا
بے چہرگی کی بھیڑ میں ہر چہرہ کھو گیا
جس کو سزا ملی تھی کہ جاگے تمام عمر
سنتا ہوں آج موت کی بانہوں میں سو گیا
حرکت کسی میں ہے نہ حرارت کسی میں ہے
کیا شہر تھا جو برف کی چٹان ہو گیا
میں اس کو نفرتوں کے سوا کچھ نہ دے سکا
وہ چاہتوں کا بیج مرے دل میں بو گیا
مرہم تو رکھ سکا نہ کوئی میرے زخم پر
جو آیا ایک نشتر تازہ چبھو گیا
یا کیجئے قبول کہ ہر چہرہ زرد ہے
یا کہئے ہر نگاہ کو یرقان ہو گیا
میں نے تو اپنے غم کی کہانی سنائی تھی
کیوں اپنے اپنے غم میں ہر اک شخص کھو گیا
اس دشمن وفا کو دعا دے رہا ہوں میں
میرا نہ ہو سکا وہ کسی کا تو ہو گیا
اک ماہ وش نے چوم لی پیشانی حفیظؔ
دلچسپ حادثہ تھا جو کل رات ہو گیا
غزل
یہ حادثہ بھی شہر نگاراں میں ہو گیا
حفیظ بنارسی