EN हिंदी
یہ گھومتا ہوا آئینہ اپنا ٹھہرا کے | شیح شیری
ye ghumta hua aaina apna Thahra ke

غزل

یہ گھومتا ہوا آئینہ اپنا ٹھہرا کے

اعجاز گل

;

یہ گھومتا ہوا آئینہ اپنا ٹھہرا کے
ذرا دکھا مرا رفتہ تو چرخ پلٹا کے

ہے کائنات معمہ جدا طریقے کا
فقط سلجھتا ہے آپس میں گرہیں الجھا کے

نتیجہ ایک سا نکلا دماغ اور دل کا
کہ دونوں ہار گئے امتحاں میں دنیا کے

مسافروں سے رہا ہے وہ راستا آباد
پلٹ کے آئے نہیں جس سے پیش رو جا کے

یہ ہجر زاد سمجھتا ہے کم وصال کی بات
بتا جو رمز و کنایہ ہیں خوب پھیلا کے

کہ بند رہتا ہے شہر طلب کا دروازہ
یقین آیا مجھے بار بار جا آ کے

خفیف ہو کے میں چہرے کو پھیر لیتا ہوں
اگر گزرتا ہے تجھ آشنا سا کترا کے

جواب میرا غلط تھا سوال اس کا درست
کھلا یہ مجھ پہ کسی ناسمجھ کو سمجھا کے