یہ گھر سراب تمنا دکھائی دیتا ہے
جسے بھی دیکھیے پیاسا دکھائی دیتا ہے
یہ کائنات بھی اک خواب نا تمام سی ہے
اور اس کا سلسلہ دھوکا دکھائی دیتا ہے
قریب آئے تو لگتا ہے جسم خوشبو کا
وہ دور سے کوئی شعلہ دکھائی دیتا ہے
میں اک مکان کی تعریف کس طرح کر دوں
یہ سارا شہر ہی اچھا دکھائی دیتا ہے
ہزار چہرے دھندلکوں میں کھو گئے اشہرؔ
جدھر بھی دیکھیے صحرا دکھائی دیتا ہے
غزل
یہ گھر سراب تمنا دکھائی دیتا ہے
اقبال اشہر قریشی