EN हिंदी
یہ گھر کے بھید ہیں کہوں کیسے زبان سے | شیح شیری
ye ghar ke bhed hain kahun kaise zaban se

غزل

یہ گھر کے بھید ہیں کہوں کیسے زبان سے

مراتب اختر

;

یہ گھر کے بھید ہیں کہوں کیسے زبان سے
کیا دکھ ملے ہیں مجھ کو میرے بھائی جان سے

کیفے کے ایک کونے میں مصروف گفتگو
مغموم بے حیات بدن بے زبان سے

یہ دن جو آج بیت گیا پھر نہ آئے گا
یہ تیر بھی نکل گیا قوس کمان سے

اچھے بشر ہیں جن کو نہیں ڈھونڈنے کی دھن
اچھا خدا ہے دور ہے وابستگان سے

الٹے کنوئیں کے قطر میں لٹکا دیئے گئے
اترے تھے دو فرشتے کبھی آسمان سے