یہ غم بھی ہے کہ تیرے پیار کا دعویٰ نہیں کرتا
خوشی بھی ہے کہ اپنے آپ سے دھوکا نہیں کرتا
اگر میں نے تجھے دنیا پہ قرباں کر دیا تو کیا
یہاں انسان جینے کے لیے کیا کیا نہیں کرتا
جو ان سونے کی دہلیزوں پہ جا کر ختم ہوتی ہیں
میں ان گلیوں سے اب تیرا پتہ پوچھا نہیں کرتا
وہ جس پر تو نے دو دل ایک ناوک سے گزارے تھے
میں اب اس پیڑ کے سائے میں بھی بیٹھا نہیں کرتا
میں اپنے آپ کو ڈھونڈوں گا اپنی شکل کے اندر
میں اپنی بے دلی کا آئنہ میلا نہیں کرتا
میں اپنے جسم کے ساحل پہ تیری آرزو لکھوں
یقیں ہو گر کہ پانی ریت سے گزرا نہیں کرتا
غزل
یہ غم بھی ہے کہ تیرے پیار کا دعویٰ نہیں کرتا
نثار ناسک