یہ غلط ہے اے دل بد گماں کہ وہاں کسی کا گزر نہیں
فقط اس لیے یہ حجاب ہے کہ کسی کو تاب نظر نہیں
کہو کچھ حقیقت مشتہر کہ مجھے کہیں کی خبر نہیں
یہ مناظر دو جہاں ہیں کیا جو فریب ذوق نظر نہیں
کسی آہ میں نہیں سوز جب کسی نالے میں جب اثر نہیں
یہ کمال سوزش دل نہیں یہ فروغ داغ جگر نہیں
چمک اٹھ رہی ہے جو پے بہ پے یہ تجلیوں کا خزانہ ہے
یہ ہجوم برق تپاں نہیں یہ متاع درد جگر نہیں
یہ ہے اہتمام حجاب کیوں یہ ہے بند و بست نقاب کیوں
تمہیں آنکھ بھر کے میں دیکھ لوں وہ نظر نہیں وہ جگر نہیں
وہ رہین لذت غم ہوں میں نہ ملی ازل میں جسے طرب
میں ہی اس کرم کا تھا منتظر میں ہی مستحق تھا مگر نہیں
کبھی وقت ناز و نیاز ہے کبھی محو زلف ایاز ہے
مگر اس پہ بھی دل غزنوی کرم آشنائے نظر نہیں
یہ تعینات نظام تھے فقط ایک پردۂ ماسوا
خبر اس کی جب سے ہوئی مجھے کوئی اس جہاں کی خبر نہیں
تجھے کارگاہ فنا بتا انہی ہستیوں پہ غرور ہے
جو شریک سود و زیاں نہیں جو رہین نفع و ضرر نہیں
چمک اے چراغ ضمیر اب کہ طلوع مہر کمال ہو
وہ لحد ہوں تیرہ و تار میں کہ جہاں بیاض سحر نہیں
نہ وہ سوز ہے نہ وہ ساز ہے نہ وہ دل خزانۂ راز ہے
وہ شرر ہوں جس میں دھواں نہیں وہ حجر ہوں جس میں شرر نہیں
نظر اس کی ہے مری سمت ابھی مرا دامن گہریں نہ دیکھ
ابھی خون دل ہے رکا ہوا ابھی آنسوؤں سے یہ تر نہیں
چمک اے تجلیٔ دل ربا نکل اے خلاصۂ دعا
کہ نظارۂ دو جہاں فقط یہ مآل ذوق نظر نہیں
یہ جبہ سائی بے محل مجھے شب کو دے رہی تھی خبر
نہ مٹا دے ظلمت دہر جو وہ نشان سجدۂ در نہیں
یہ تغیرات جہاں نہیں اثر تلون طبع ہے
تری اک نظر کا کرشمہ یہ فلک کی گردش سر نہیں
کہو شمع سے کہ یہ نقل کیا کوئی اپنا قصۂ غم کہے
کرے اب فسانے کو مختصر کہ مجھے امید سحر نہیں
ہے تلاش اپنی فقط مجھے میں ملوں تو ہوں گی شکایتیں
مجھے اب کسی سے گلا نہیں مجھے اب کسی کی خبر نہیں
یہی منزلیں ہیں وہ منزلیں کہ جہنم ان سے پناہ لے
دل نا شناس رہ وفا مجھے کوئی خوف و خطر نہیں
مری غفلتوں کا گلا نہ کر یہی نظم کون و فساد ہے
خبر اس طلسم نمود کی مجھے ہو چکی ہے مگر نہیں
سبق اس سے لے کہ خبر ملے تجھے آنے والے زمانے کی
ہے تغیرات کا آئنہ یہ شکستہ کاسۂ سر نہیں
یہ ہیں دار تیری نگاہ کے کسی ناتواں سے رکیں گے کیا
دل داغ داغ عزیزؔ ہے ستم آزما یہ سپر نہیں
غزل
یہ غلط ہے اے دل بد گماں کہ وہاں کسی کا گزر نہیں
عزیز لکھنوی