EN हिंदी
یہ فرقتوں میں لمحۂ وصال کیسے آ گیا | شیح شیری
ye furqaton mein lamha-e-visal kaise aa gaya

غزل

یہ فرقتوں میں لمحۂ وصال کیسے آ گیا

فرحت ندیم ہمایوں

;

یہ فرقتوں میں لمحۂ وصال کیسے آ گیا
محبتوں میں پھر نیا ابال کیسے آ گیا

جسے جہاں کے مشغلوں میں اپنا ہوش بھی نہ تھا
اچانک آج اسے مرا خیال کیسے آ گیا

ابھی تلک تو میرے سارے زخم تھے ہرے بھرے
یکایک ان کو کار اندمال کیسے آ گیا

جدائی کا بس ایک پل گراں تھا زندگی پہ جب
تو درمیان بحر ماہ و سال کیسے آ گیا

ابھی تلک تھیں وقت کی طنابیں اس کے ہاتھ میں
عدم فراغتوں کا پھر سوال کیسے آ گیا

مرے ذرا سے درد پر تڑپ تھی جس کی دیدنی
اسے ستم گری کا یہ کمال کیسے آ گیا

ندیمؔ اپنی چاہتوں پہ ناز تھا تمہیں بہت
تو پھر تمہارے عشق پر زوال کیسے آ گیا