یہ فرقتوں میں لمحۂ وصال کیسے آ گیا
محبتوں میں پھر نیا ابال کیسے آ گیا
جسے جہاں کے مشغلوں میں اپنا ہوش بھی نہ تھا
اچانک آج اسے مرا خیال کیسے آ گیا
ابھی تلک تو میرے سارے زخم تھے ہرے بھرے
یکایک ان کو کار اندمال کیسے آ گیا
جدائی کا بس ایک پل گراں تھا زندگی پہ جب
تو درمیان بحر ماہ و سال کیسے آ گیا
ابھی تلک تھیں وقت کی طنابیں اس کے ہاتھ میں
عدم فراغتوں کا پھر سوال کیسے آ گیا
مرے ذرا سے درد پر تڑپ تھی جس کی دیدنی
اسے ستم گری کا یہ کمال کیسے آ گیا
ندیمؔ اپنی چاہتوں پہ ناز تھا تمہیں بہت
تو پھر تمہارے عشق پر زوال کیسے آ گیا
غزل
یہ فرقتوں میں لمحۂ وصال کیسے آ گیا
فرحت ندیم ہمایوں