یہ فضائے نیلگوں یہ بال و پر کافی نہیں
ماہ و انجم تک مرا ذوق سفر کافی نہیں
ایک ساعت اک صدی ہے اک نظر آفاق گیر
اب نظام گردش شام و سحر کافی نہیں
پھر جنوں کو وسعت افلاک ہے کوہ ندا
اے دل دیوانہ دشت پر خطر کافی نہیں
یہ ہوائے نم یہ سینے میں سلگتی آگ سی
آہ یہ عمر رواں کی رہگزر کافی نہیں
پھر مشیت سے الجھتی ہے مری دیوانگی
نالۂ شبگیر اشکوں کے گہر کافی نہیں
آرزوئے بے کراں ہے اور جسم ناتواں
کیا رگ جاں کے لیے یہ نیشتر کافی نہیں
خنکیٔ شبنم سے غنچہ کو نہیں تسکین قلب
زخم گل کو اب نسیم چارہ گر کافی نہیں
شیشۂ شب میں بھری ہے فوقؔ جو صہبائے کیف
قطرہ قطرہ بھی پیوں تو رات بھر کافی نہیں

غزل
یہ فضائے نیلگوں یہ بال و پر کافی نہیں
حنیف فوق