یہ دنیا ہے اسے دار الفتن کہنا ہی پڑتا ہے
یہاں ہر راہبر کو راہزن کہنا ہی پڑتا ہے
وفور عقل انساں سے بڑھی انساں کشی اتنی
وفور عقل کو دیوانہ پن کہنا ہی پڑتا ہے
وہ صحرا جس میں کٹ جاتے ہیں دن یاد بہاراں سے
با الفاظ دگر اس کو چمن کہنا ہی پڑتا ہے
گل افشانیٔ گفتار مجاہد بے اثر ہو جب
تو اس کو قصۂ دار و رسن کہنا ہی پڑتا ہے
یہاں کتنوں کے جی چھوٹے یہاں کتنوں کے دم ٹوٹے
وفا کی راہ کو ہمت شکن کہنا ہی پڑتا ہے
غزل
یہ دنیا ہے اسے دار الفتن کہنا ہی پڑتا ہے
عرش ملسیانی