یہ دوستی کا تقاضا ہے اس کو دھیان میں رکھ
ہمیشہ فاصلہ تھوڑا سا درمیان میں رکھ
بدلنے والا ہے خورشید تاب کا موسم
تو کوئی دیر ابھی خود کو سائبان میں رکھ
سفینہ خود ہی ترا جا لگے گا ساحل سے
ہوا لپیٹ کے تھوڑی سی بادبان میں رکھ
ثبوت اپنی شجاعت کا تجھ کو دینا ہے
شکستہ تیر کڑکتی ہوئی کمان میں رکھ
ترے سخن کے سدا لوگ ہوں گے گرویدہ
مٹھاس اردو کی تھوڑی بہت زبان میں رکھ
مبارکؔ اور کہیں پر پناہ گاہ نہ ڈھونڈ
تو اپنے آپ کو اللہ کی امان میں رکھ
غزل
یہ دوستی کا تقاضا ہے اس کو دھیان میں رکھ
مبارک انصاری