یہ دن یہ رات یہ شام و سحر سمیٹ لئے
غزل کے شوق نے کتنے پہر سمیٹ لئے
فضا میں ایسا تعصب کا زہر پھیل گیا
نہ جانے کتنے پرندوں نے پر سمیٹ لئے
سماج تیری مرمت نہ ہو سکے گی کہیں
جو ہم غریبوں نے دست و ہنر سمیٹ لئے
یہ سوچ کر کہ اندھیرے نہ زندگی بن جائیں
جہاں جہاں ملے شمس و قمر سمیٹ لئے
بکھیر پائے نہ ہم راستوں میں پھول مگر
ملے جو خار سر رہ گزر سمیٹ لئے
پتا بتائے گا اب وقت ان کی منزل کا
مسافروں نے تو رکھتے سفر سمیٹ لئے
سمجھ میں آ گئی شاہدؔ اگر کوئی بھی ردیف
جو قافیہ بھی لگے معتبر سمیٹ لئے
غزل
یہ دن یہ رات یہ شام و سحر سمیٹ لئے
شاہد جمال