یہ دل میں وسوسہ کیا پل رہا ہے
ترا ملنا بھی مجھ کو کھل رہا ہے
جسے میں نے کیا تھا بے خودی میں
جبیں پر اب وہ سجدہ جل رہا ہے
مجھے مت دو مبارک باد ہستی
کسی کا ہے یہ سایہ چل رہا ہے
سر صحرا سدا دل کے شجر سے
برستا دور اک بادل رہا ہے
فساد لغزش تخلیق آدم
ابھی تک ہاتھ یزداں مل رہا ہے
دلوں کی آگ کیا کافی نہیں ہے
جہنم بے ضرورت جل رہا ہے

غزل
یہ دل میں وسوسہ کیا پل رہا ہے
آصف رضا