EN हिंदी
یہ دل ہی جانتا ہے پھر کہاں کہاں بھٹکے | شیح شیری
ye dil hi jaanta hai phir kahan kahan bhaTke

غزل

یہ دل ہی جانتا ہے پھر کہاں کہاں بھٹکے

انو بھو گپتا

;

یہ دل ہی جانتا ہے پھر کہاں کہاں بھٹکے
بچھڑ کے تم سے ہم آخر کہاں کہاں بھٹکے

ہمارے پاؤں کے چھالے ہی یہ سمجھتے ہیں
کہ تیرے پیار کی خاطر کہاں کہاں بھٹکے

تمہاری چاند سی تصویر کے تصور میں
ہمیں پتا ہے مصور کہاں کہاں بھٹکے

تمہیں پتا ہی نہیں تم کو دیکھنے کے بعد
غزل کے نام سے شاعر کہاں کہاں بھٹکے

خدا ہی جانے مرے خواب بیچ دینے کے بعد
مری وفاؤں کے تاجر کہاں کہاں بھٹکے

کبھی جو گھر سے نہ نکلا ہو اس کو کیا معلوم
سفر میں کتنے مسافر کہاں کہاں بھٹکے

ملا اندھیرے میں جو کچھ خدا بنا ڈالا
خدا کو چھوڑ کے کافر کہاں کہاں بھٹکے

کہیں قرار نہ آیا کہیں سکوں نہ ملا
بچھڑ کے گھر سے مہاجر کہاں کہاں بھٹکے