یہ دل ہر اک نئی کوشش پہ یوں دھڑکتا ہے
کہ جیسے کوئی نتیجہ نکلنے والا ہے
ہمیں خبر ہے کہ ہے کون کتنے پانی میں
یہ شہر سطح سمندر سے کتنا اونچا ہے
سراب پیاس بجھاتا نہیں کبھی لیکن
یہ بات خوب سمجھتا ہے کون پیاسا ہے
تمہارے ہاتھ میں تقدیر ہے اجالوں کی
چراغ کو یہ خبر کیا کہاں اندھیرا ہے
سنائی دیتی ہے اب صرف آنسوؤں کی صدا
نگاہ پر بھی کئی دن سے سخت پہرا ہے
نہ دوستی ہی کو پرکھا نہ دشمنی کو شکیلؔ
مگر یہ کس نے کہا تجربہ ادھورا ہے

غزل
یہ دل ہر اک نئی کوشش پہ یوں دھڑکتا ہے
شکیل گوالیاری