EN हिंदी
یہ دل ہر اک نئی کوشش پہ یوں دھڑکتا ہے | شیح شیری
ye dil har ek nai koshish pe yun dhaDakta hai

غزل

یہ دل ہر اک نئی کوشش پہ یوں دھڑکتا ہے

شکیل گوالیاری

;

یہ دل ہر اک نئی کوشش پہ یوں دھڑکتا ہے
کہ جیسے کوئی نتیجہ نکلنے والا ہے

ہمیں خبر ہے کہ ہے کون کتنے پانی میں
یہ شہر سطح سمندر سے کتنا اونچا ہے

سراب پیاس بجھاتا نہیں کبھی لیکن
یہ بات خوب سمجھتا ہے کون پیاسا ہے

تمہارے ہاتھ میں تقدیر ہے اجالوں کی
چراغ کو یہ خبر کیا کہاں اندھیرا ہے

سنائی دیتی ہے اب صرف آنسوؤں کی صدا
نگاہ پر بھی کئی دن سے سخت پہرا ہے

نہ دوستی ہی کو پرکھا نہ دشمنی کو شکیلؔ
مگر یہ کس نے کہا تجربہ ادھورا ہے