EN हिंदी
یہ دور کیسا ہے یا الٰہی کہ دوست دشمن سے کم نہیں ہے | شیح شیری
ye daur kaisa hai ya-ilahi ki dost dushman se kam nahin hai

غزل

یہ دور کیسا ہے یا الٰہی کہ دوست دشمن سے کم نہیں ہے

فاضل انصاری

;

یہ دور کیسا ہے یا الٰہی کہ دوست دشمن سے کم نہیں ہے
خلوص ہر رہبر‌ زمانہ فریب رہزن سے کم نہیں ہے

ہوا تو ہے بے نقاب کوئی نظر ہے محروم دید پھر بھی
نقاب سے ہے سوا تجلی جمال چلمن سے کم نہیں ہے

لگا کے خون جگر کا ٹیکا ہے سامنے غم کے سر بہ سجدہ
صنم پرستی میں تو بھی اے دل کسی برہمن سے کم نہیں ہے

قفس کہ ہے اب مرا ٹھکانہ ضرور ہوگا تباہ اک دن
کہ بجلیوں کی نظر میں یہ بھی مرے نشیمن سے کم نہیں ہے

مثال خورشید جلوہ گر ہے جگر کا ہر ایک داغ تاباں
نظارہ کر میری شام غم کا جو صبح روشن سے کم نہیں ہے

یہ خشک بے رنگ خار فاضل مرے لئے ہیں گلوں سے بہتر
مری نظر میں مرا بیاباں کسی کے گلشن سے کم نہیں ہے