یہ دوڑ دھوپ بہ ہر صبح و شام کس کے لیے
بس ایک نام کی خاطر یہ نام کس کے لیے
مرا وجود بصد اہتمام کس کے لیے
تمام عمر جلا صبح و شام کس کے لیے
یہاں تو کوئی نہیں اونگھتے دیوں کے سوا
بھرا ہے تم نے محبت کا جام کس کے لیے
امنڈ پڑی ہے خدائی عجیب عالم ہے
سنا گیا وہ سزائے دوام کس کے لیے
بہت کٹھن ہے محبت کی ناز برداری
وہ شخص چھوڑ گیا ہے یہ کام کس کے لیے
یہ راہ و رسم زمانے سے کس کی خاطر ہے
یہ ہر کسی سے دعا و سلام کس کے لیے
وہی جو خون کے پیاسے تھے کل تلک ناظمؔ
یہ میٹھے بول یہ شیریں کلام کس کے لیے
غزل
یہ دوڑ دھوپ بہ ہر صبح و شام کس کے لیے
ناظم سلطانپوری