EN हिंदी
یہ چھپکے کا جو بالا کان میں اب تم نے ڈالا ہے | شیح شیری
ye chhapke ka jo baala kan mein ab tumne Dala hai

غزل

یہ چھپکے کا جو بالا کان میں اب تم نے ڈالا ہے

نظیر اکبرآبادی

;

یہ چھپکے کا جو بالا کان میں اب تم نے ڈالا ہے
اسی بالے کی دولت سے تمہارا بول بالا ہے

نزاکت سر سے پاؤں تک پڑی قربان ہوتی ہے
الٰہی اس بدن کو تو نے کس سانچے میں ڈھالا ہے

یہ دل کیوں کر نگہ سے اس کی چھدتے ہیں میں حیراں ہوں
نہ خنجر ہے نہ نشتر ہے نہ جمدھر ہے نہ بھالا ہے

بلائیں ناگ کالے ناگنیں اور سانپ کے بچے
خدا جانے کہ اس جوڑے میں کیا کیا باندھ ڈالا ہے

نہ غول آتا ہے خوباں کا سرک اے دل میں کہتا ہوں
یہ کمپو کی نہیں پلٹن یہ پریوں کا رسالا ہے

جسے تم لے کے بیدردی سے پاؤں میں کچلتے ہو
یہ دل میں نے تو اے صاحب بڑی محنت سے پالا ہے

نظیرؔ اک اور لکھ ایسی غزل جو سن کے جی خوش ہو
اری اس ڈھب کی باتوں نے تو دل میں شور ڈالا ہے