یہ بچھڑنا تو مری جان بچھڑنا نہ ہوا
مل کے روئے بھی نہیں حشر بھی برپا نہ ہوا
ایک وحشت سی رہی تجھ سے بچھڑ کر دل میں
لب ساکت سے مگر کوئی بھی شکوہ نہ ہوا
تجھ کو پا کر بھی مکمل نہیں ہو پایا کبھی
اور میں تجھ سے بچھڑ کے بھی ادھورا نہ ہوا
وحشت عشق نے مصروف رکھا تجھ میں سدا
اور تجھ کو کبھی مجھ پر ہی بھروسہ نہ ہوا
جائیے ہم بھی یہ تسلیم کئے لیتے ہیں
ہم نے دیکھا تھا کوئی خواب جو پورا نہ ہوا
غزل
یہ بچھڑنا تو مری جان بچھڑنا نہ ہوا
معراج نقوی