یہ بھی شاید ترا انداز دل آرائی ہے
ہم نے ہر سانس پہ مرنے کی سزا پائی ہے
کیسا پیغام کہاں سے یہ صبا لائی ہے
شاخ گل صبح بہاراں ہی میں مرجھائی ہے
دل کے آباد خرابے میں نہ شب ہے نہ سحر
چاندنی لے کے تری یاد کہاں آئی ہے
تو مرے چاک گریباں سے تو محجوب نہ ہو
میں نے کب تیری محبت کی قسم کھائی ہے
تجھ کو اس طرح بھی دیکھا ہے مری آنکھوں میں
تیری آواز کی تصویر اتر آئی ہے
تیری محفل میں کہ مقتل میں کہیں دیکھا تھا
زندگی سے مری بس اتنی شناسائی ہے
کیا ترا حال بھی اے انجمن آرا ہے یہی
میں ترے پاس ہوں لیکن وہی تنہائی ہے
غزل
یہ بھی شاید ترا انداز دل آرائی ہے
سلیمان اریب