یہ بزم شب ہے یہاں علم و آگہی کم ہے
کئی چراغ جلے پھر بھی روشنی کم ہے
اسی لئے تو مری اس سے دوستی کم ہے
وہ خود پرست زیادہ ہے آدمی کم ہے
یہی بہت ہے کہ پانی کو چھو لیا ہم نے
بڑا ہے بحر محبت شناوری کم ہے
ہوائے گرم چلی یوں کہ بجھ گئے چہرے
گلوں میں اب کے برس بھی شگفتگی کم ہے
کہاں کے عشق و محبت کہاں کے علم و ہنر
خمار شوق زیادہ ہے آگہی کم ہے
خطا ہے اپنی کہ ماحول ہے زمانے کا
نگاہ گرم بہت صلح و آشتی کم ہے
فضا بدلنے سے دل تو بدل نہیں جاتے
وہ انقلاب ہے کیا جس کی زندگی کم ہے
خیال تازہ امڈتے ہیں بادلوں کی طرح
مجھے یہ غم کہ مرا ظرف شاعری کم ہے
مری دعائیں سبھی رائیگاں گئیں نامیؔ
نہ آسمان ہے روشن نہ تیرگی کم ہے

غزل
یہ بزم شب ہے یہاں علم و آگہی کم ہے
نامی انصاری