یہ برسوں کا تعلق توڑ دینا چاہتے ہیں ہم
اب اپنے آپ کو بھی چھوڑ دینا چاہتے ہیں ہم
کسی دہلیز پر آنکھوں کے یہ روشن دیئے رکھ کر
ضمیر صبح کو جھنجھوڑ دینا چاہتے ہیں ہم
جدھر ہم جا رہے ہیں اس طرف ٹوٹا ہوا پل ہے
یہ باگیں اس سے پہلے موڑ دینا چاہتے ہیں ہم
یہ نوبت کل جو آنی ہے تو شرمندہ نہیں ہوں گے
مراسم احتیاطا توڑ دینا چاہتے ہیں ہم
عجب دیوانگی ہے جس کے ہم سائے میں بیٹھے ہیں
اسی دیوار سے سر پھوڑ دینا چاہتے ہیں ہم
تعلق کرچیوں کی شکل میں بکھرا تو ہے پھر بھی
شکستہ آئینوں کو جوڑ دینا چاہتے ہیں ہم
غزل
یہ برسوں کا تعلق توڑ دینا چاہتے ہیں ہم
اعتبار ساجد