EN हिंदी
یہ باتیں آج کی کل جس کتاب میں لکھنا | شیح شیری
ye baaten aaj ki kal jis kitab mein likhna

غزل

یہ باتیں آج کی کل جس کتاب میں لکھنا

نوشاد علی

;

یہ باتیں آج کی کل جس کتاب میں لکھنا
تم اپنے جرم کو میرے حساب میں لکھنا

حدیث دل کو قلم سے نہ آشنا کرنا
کہانیاں ہی ہمیشہ جواب میں لکھنا

مجھے سمجھنے کی کوشش ہے شغل لا حاصل
جو چاہنا وہی تم میرے باب میں لکھنا

وہ کہتے ہیں لکھو نامہ مگر لحاظ رہے
ہمارا نام نہ ہرگز خطاب میں لکھنا

مٹا مٹا جو رہا ظلمتوں کے پردے میں
وہ حرف حق ورق آفتاب میں لکھنا

ہمیشہ جس کی ہوس کو تھی آرزوئے بہشت
اسی کی روح رہی تھی عذاب میں لکھنا

جو بات لکھنے کو تھا مضطرب بہت نوشادؔ
وہی میں بھول گیا اضطراب میں لکھنا