یہ بات پھر مجھے سورج بتانے آیا ہے
ازل سے میرے تعاقب میں میرا سایا ہے
بلند ہوتی چلی جا رہی ہیں دیواریں
اسیر در ہے وہ جس نے مجھے بلایا ہے
میں لا زوال تھا مٹ مٹ کے پھر ابھرتا رہا
گنوا گنوا کے مجھے زندگی نے پایا ہے
وہ جس کے نین ہیں گہرے سمندروں جیسے
وہ اپنی ذات میں مجھ کو ڈبونے آیا ہے
ملی ہے اس کو بھی شہرت قتیلؔ میری طرح
جب اس نے اپنے لبوں پر مجھے سجایا ہے
غزل
یہ بات پھر مجھے سورج بتانے آیا ہے
قتیل شفائی