یہ باغ زندہ رہے یہ بہار زندہ رہے
میں مر بھی جاؤں تو کیا میرا یار زندہ رہے
قدیم راستے روپوش ہوتے جاتے ہیں
سو تیرا کوچہ تری رہ گزار زندہ رہے
ہمیشہ ساز بجاتی رہے یوں ہی تری زلف
اور اس کے ساز کا ایک ایک تار زندہ رہے
یہ خاک زندہ انہی آنسوؤں کے دم سے ہے
ہر ایک دیدۂ آنسو شعار زندہ رہے
فرار روح ہوئی سارا نقد جاں لے کر
ہم اپنے جسم سے لے کر ادھار زندہ رہے
میں تیرے گھر یوں ہی بے قید آتا جاتا رہوں
تری نظر میں مرا اعتبار زندہ رہے
ہزار شکریہ احساسؔ جی ان آنکھوں کا
ہم ان کے تیر کا ہو کر شکار زندہ رہے
غزل
یہ باغ زندہ رہے یہ بہار زندہ رہے
فرحت احساس