یہ اور بات کہ اس عہد کی نظر میں ہوں
ابھی میں کیا کہ ابھی منزل سفر میں ہوں
ابھی نظر نہیں ایسی کہ دور تک دیکھوں
ابھی خبر نہیں مجھ کو کہ کس اثر میں ہوں
پگھل رہے ہیں جہاں لوگ شعلۂ جاں سے
شریک میں بھی اسی محفل ہنر میں ہوں
جو چاہے سجدہ گزارے جو چاہے ٹھکرا دے
پڑا ہوا میں زمانے کی رہ گزر میں ہوں
جو سایہ ہو تو ڈروں اور دھوپ ہو تو جلوں
کہ ایک نخل نمو خاک نوحہ گر میں ہوں
کرن کرن کبھی خورشید بن کے نکلوں گا
ابھی چراغ کی صورت میں اپنے گھر میں ہوں
بچھڑ گئی ہے وہ خوشبو اجڑ گیا ہے وہ رنگ
بس اب تو خواب سا کچھ اپنی چشم تر میں ہوں

غزل
یہ اور بات کہ اس عہد کی نظر میں ہوں
عبید اللہ علیم