EN हिंदी
یہ اور بات کہ اس عہد کی نظر میں ہوں | شیح شیری
ye aur baat ki is ahd ki nazar mein hun

غزل

یہ اور بات کہ اس عہد کی نظر میں ہوں

عبید اللہ علیم

;

یہ اور بات کہ اس عہد کی نظر میں ہوں
ابھی میں کیا کہ ابھی منزل سفر میں ہوں

ابھی نظر نہیں ایسی کہ دور تک دیکھوں
ابھی خبر نہیں مجھ کو کہ کس اثر میں ہوں

پگھل رہے ہیں جہاں لوگ شعلۂ جاں سے
شریک میں بھی اسی محفل ہنر میں ہوں

جو چاہے سجدہ گزارے جو چاہے ٹھکرا دے
پڑا ہوا میں زمانے کی رہ گزر میں ہوں

جو سایہ ہو تو ڈروں اور دھوپ ہو تو جلوں
کہ ایک نخل نمو خاک نوحہ گر میں ہوں

کرن کرن کبھی خورشید بن کے نکلوں گا
ابھی چراغ کی صورت میں اپنے گھر میں ہوں

بچھڑ گئی ہے وہ خوشبو اجڑ گیا ہے وہ رنگ
بس اب تو خواب سا کچھ اپنی چشم تر میں ہوں