EN हिंदी
یہ اور بات کہ گملے میں اگ رہا ہوں میں | شیح شیری
ye aur baat ki gamle mein ug raha hun main

غزل

یہ اور بات کہ گملے میں اگ رہا ہوں میں

شمیم قاسمی

;

یہ اور بات کہ گملے میں اگ رہا ہوں میں
زبان بھول نہ پائے وہ ذائقہ ہوں میں

اندھیری شب میں حرارت بدن کی روشن رکھ
وہی کروں گا اشارہ جو کر رہا ہوں میں

سخن سفر میں بدن اس نے کھول رکھے ہیں
ذرا سا سایۂ دیوار چاہتا ہوں میں

میں چاہتا ہوں کہوں ایک نک چڑھی سی غزل
اگرچہ حلقۂ یاراں میں نک چڑھا ہوں میں

مجھے قریب سے دیکھو مجھے پڑھو سمجھو
نئے سفر نئے موسم کا قافلہ ہوں میں