یہ اور بات کہ گملے میں اگ رہا ہوں میں
زبان بھول نہ پائے وہ ذائقہ ہوں میں
اندھیری شب میں حرارت بدن کی روشن رکھ
وہی کروں گا اشارہ جو کر رہا ہوں میں
سخن سفر میں بدن اس نے کھول رکھے ہیں
ذرا سا سایۂ دیوار چاہتا ہوں میں
میں چاہتا ہوں کہوں ایک نک چڑھی سی غزل
اگرچہ حلقۂ یاراں میں نک چڑھا ہوں میں
مجھے قریب سے دیکھو مجھے پڑھو سمجھو
نئے سفر نئے موسم کا قافلہ ہوں میں
غزل
یہ اور بات کہ گملے میں اگ رہا ہوں میں
شمیم قاسمی