EN हिंदी
یہ ارض و سما قلزم و صحرا متحرک | شیح شیری
ye arz-o-sama qulzum-o-sahra mutharrik

غزل

یہ ارض و سما قلزم و صحرا متحرک

شمس رمزی

;

یہ ارض و سما قلزم و صحرا متحرک
اک تو ہی نہیں شمس ہے دنیا متحرک

تا حد نظر اک وہی چہرا متحرک
یا حسن مجسم کا ہے جلوا متحرک

انسانوں میں اب بوئے وفا ہی نہیں ملتی
ہر شخص نظر آتا ہے تنہا متحرک

یہ سوچ رہا ہوں اسے کس چیز کا غم ہے
رہتی ہے مرے دل میں تمنا متحرک

یوں دھوپ سے گھبرا کے میں سائے میں نہ بیٹھا
ساکن ہے اگر پیڑ تو سایا متحرک

خوشبوئے گل تر پہ ہی موقوف نہیں ہے
ہر شاخ گل تر کا ہے پتا متحرک

روشن کیے اک نے تو بجھائے دیے اک نے
حرکت میں ہے ظلمت تو اجالا متحرک

جس کی بھی جو منزل ہے وہیں تک یہ گیا ہے
راہی کی بدولت ہوا رستا متحرک

وہ چاند ہو سورج ہو گل تر ہو کہ شبنم
ہم نے تو ہر اک چیز کو دیکھا متحرک

دریا کی حدوں میں جو اتر جاؤ گے اے شمسؔ
آئیں گے نظر ساحل و دریا متحرک