یہ ارمان جب تک مچلتے رہیں گے
ہزاروں ہی غم دل میں پلتے رہیں گے
صدا ہاتھ سچائی کا ہم نے تھاما
خبر کیا تھی بازو ہی گلتے رہیں گے
سلامت رہیں گی یہ سانسیں جہاں تک
نگاہوں میں ہم سب کی کھلتے رہیں گے
سیاست کی بازی وطن نوچ لے گی
کفن اف شہیدوں کے ڈھلتے رہیں گے
بہت تلخ لہجہ ہے دنیا کا یارو
کہاں تک بھلا یوں ہی جلتے رہیں گے
نصیبوں سے ملتے ہیں غم یہ سمجھ کر
فقط خود کو خود سے ہی چھلتے رہیں گے
کبھی سارتھیؔ تو قدم روکنا مت
یہ چھالے تو یوں ہی ابلتے رہیں گے

غزل
یہ ارمان جب تک مچلتے رہیں گے
مونیکا شرما سارتھی