یہ اپنے آپ پہ تعزیر کر رہی ہوں میں
کہ اپنی سوچ کو زنجیر کر رہی ہوں میں
ہواؤں سے بھی نبھانی ہے دوستی مجھ کو
دئے کا لفظ بھی تحریر کر رہی ہوں میں
نہ جانے کب سے بدن تھے ادھورے خوابوں کے
تمھاری آنکھ میں تعبیر کر رہی ہوں میں
دریچہ کھولے ہوئے رنگ اور خوشبو کا
سہانی شام کو تصویر کر رہی ہوں میں
دعائیں مانگ رہی ہوں ہوا رہے جاہل
گھروندہ ریت پہ تعمیر کر رہی ہوں میں
وہ منتظر ہے مرا کب سے خود پہ رات اوڑھے
شبانہؔ صبح سی تاخیر کر رہی ہوں میں
غزل
یہ اپنے آپ پہ تعزیر کر رہی ہوں میں
شبانہ یوسف