یہ عمل موجۂ انفاس کا دھوکا ہی نہ ہو
زندگی عشرت احساس کا دھوکا ہی نہ ہو
جیسے اک خواب ہوا عہد گزشتہ کا ثبات
دم آئندہ مری آس کا دھوکا ہی نہ ہو
یہ نگیں بھی نہ ہو بس معجزۂ تار نظر
یہ ہنر شیشہ و الماس کا دھوکا ہی نہ ہو
مرے تخئیل کے ہی عکس نہ ہوں سبزہ و گل
دہر اوہام کا وسواس کا دھوکا ہی نہ ہو
ہر یقیں میں جو نکلتا ہے گماں کا پہلو
یہ مری عقل کے خناس کا دھوکا ہی نہ ہو
غزل
یہ عمل موجۂ انفاس کا دھوکا ہی نہ ہو
رحمان حفیظ