یہ الگ بات کہ وہ مجھ سے خفا رہتا ہے
میں اک انسان ہوں اور مجھ میں خدا رہتا ہے
میری باتوں میں بہت اس کی جھلک آتی ہے
اس کے لہجے میں مرا ذہن بسا رہتا ہے
قید میں اس سے بہادر نہ کوئی دیکھا تھا
اب جو آزاد ہے تھوڑا سا ڈرا رہتا ہے
اور لوگوں کی نگاہوں میں برا ہو لیکن
اپنی نظروں میں بھی گر جائے تو کیا رہتا ہے
پل سے گزرے تو ندی دھیان سے دیکھی ہم نے
ورنہ منظر یہ نگاہوں سے چھپا رہتا ہے

غزل
یہ الگ بات کہ وہ مجھ سے خفا رہتا ہے
سلمان اختر