یہ الگ بات کہ ہم سا نہیں پیاسا کوئی
پھر بھی دریا سے تعلق نہیں رکھا کوئی
میرے مکتب کو دھماکے سے اڑایا گیا ہے
اب کہ ہاتھوں میں کتابیں ہیں نہ بستہ کوئی
جانے کس اور گیا قافلہ امیدوں کا
دل کے صحرا میں نہیں آس کا خیمہ کوئی
کس عجب دھن میں یہاں عمر گنوائی ہم نے
قرض مٹی کا اتارا نہ ہی اپنا کوئی
پیاس کے ہاتھوں مرا قتل ہوا ہے نعمانؔ
دوست دریا تھے مگر پاس نہ آیا کوئی

غزل
یہ الگ بات کہ ہم سا نہیں پیاسا کوئی
نعمان فاروق