EN हिंदी
یہ الگ بات کہ ہم سا نہیں پیاسا کوئی | شیح شیری
ye alag baat ki hum sa nahin pyasa koi

غزل

یہ الگ بات کہ ہم سا نہیں پیاسا کوئی

نعمان فاروق

;

یہ الگ بات کہ ہم سا نہیں پیاسا کوئی
پھر بھی دریا سے تعلق نہیں رکھا کوئی

میرے مکتب کو دھماکے سے اڑایا گیا ہے
اب کہ ہاتھوں میں کتابیں ہیں نہ بستہ کوئی

جانے کس اور گیا قافلہ امیدوں کا
دل کے صحرا میں نہیں آس کا خیمہ کوئی

کس عجب دھن میں یہاں عمر گنوائی ہم نے
قرض مٹی کا اتارا نہ ہی اپنا کوئی

پیاس کے ہاتھوں مرا قتل ہوا ہے نعمانؔ
دوست دریا تھے مگر پاس نہ آیا کوئی